What is Syphilis?

:سفلس کی تاریخ


سفلس کا مرض تقریبا پانچ سو سال پرانا ہے سن چودہ سو ترانوے میں پہلی دفعہ اس مرض کو ریکارڈ کیا گیا دنیا کی مختلف قوموں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی کہ یہ مرض ان کی وجہ سے پھیلا روسیوں نے پولینڈیوں پر پولینڈیوں نے جرمنز پر امریکیوں نے یورپین پر فرانسیسیوں نے کولمبینز پر عیسائیوں نے ہندوؤں پر ہندوؤں نے مسلمانوں پر الزام لگایا پھر اس کا رخ افریقہ کے جنگلوں کی طرف موڑ دیا گیا لیکن درحقیقت یہ بیماری بھی جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئی سن انیس سو پانچ میں دو سائنس دانوں سچاؤڈن اور ہوپ مین نے باقاعدہ طور پر سفلس کے مرض کو دریافت کیا میڈیکل سائنس اس وقت سے لے کے اج تک اس مرض پر اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہے صرف دنیا میں تیزی سے پھیل رہی ہے عالمی ادارہ صحت کے مطابق سن دو ہزار بیس میں دنیا بھر میں اکہتر لاکھ نئے کیسز سامنے ائے ہیں

:سفلس کی وجوہات


سفلس یعنی آتشک ایک بیکٹیریا ٹریپونیما پیلیڈم کے ذریعے پھیلنے والی مرض ہے جو مرد و عورت کے جنسی ملاپ اورل یا اینل سیکس کے ذریعے متاثرہ عورت سے مرد کو ٹرانسفر ہوتی ہے یا متاثرہ شخص سے دوران کسنگ بھی یا مرد کا مرد سے ملاپ یہ سب کے نتیجے میں آتشک کا بیکٹیریا انسانی باڈی میں ٹرانسفر ہو جاتا ہے

:سفلس کی شروعات اور مراحل


سفرنس کی شروعات ایک سخت پھنسی نما دانے سے ہوتی ہے جہاں سے جلد کے ذریعے بیکٹیریا خون میں داخل ہوتا ہے یہ دانہ ایک یا ایک سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور عموما منہ عورت اور مرد کے عضو کے ارد گرد یا اوپر بنتے ہیں اور تقریبا بیس سے پچیس دن میں خود بخود ختم ہو جاتے ہیں انہیں میڈیکل ٹرم میں شینکر یا سور بولا جاتا ہے سفلس مختلف مراحل سے ہوتی ہوئی انسان کو موت کی طرف لے جاتی ہے اس کے درج ذیل مراحل ہیں

:پرائمری سفلس


پرائمری سفلس پہلا سٹیج ہے جہاں دانہ نما پھنسیا بنتی ہیں مرد و عورت کے عضو خاص پخانے کی جگہ ہونٹ منہ یا ٹانگوں کے درمیان ۔ان پھنسیوں کے ذریعے جلد سے بیکٹیریا خون میں داخل ہو جاتا ہے یہ اتنی خطرناک مرض ہے کہ جس کا انسان کو علم بھی نہیں ہوتا اور وہ اس کا شکار بن جاتا ہے کیونکہ پھنسیاں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں اور انسان اسے عام سی پھنسی سمجھ کے توجہ نہیں دیتا اور یوں اس کی بربادی کی شروعات ہو جاتی ہیں

:سکینڈری سٹیج


یہ سٹیج جلد پر خارش کے دبوں سے شروع ہوتا ہے اور جسم کے مختلف حصوں پر خارش کے دھبے بننا شروع ہو جاتے ہیں اور مریض کے ہاتھوں اور پاؤں کے تلووں پر بھی بن سکتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ درج ذیل علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں
سر کے بالوں کا گرنا ،کانوں کا کم سننا،سر میں ہمیشہ درد رہنا،یادداشت کمزور ہونا،منہ میں چھالے بننا،جسم کا وزن کم ہو جانا،انکھوں کی بینائی متاثر یا دھندلا پن ہونا،انکھوں میں جلن درد یا پانی کا اخراج ہونا،گلا اکثر خراب رہنا،دماغ میں انفیکشن کا ہو جانا ،بھوک نہ لگنا،نیند نہ انا،ہر وقت جسم تھکاوٹ کا شکار رہنا،بخار محسوس ہونا،جوڑوں کمر ٹانگوں میں درد ہونا،پیشاب کرو ک رک کے انا،ہاتھ پاؤں کا سن ہونا،گردن بغلوں یا رانوں میں گلٹیاں بننا،مردانہ جراسیم کی کمی کی وجہ سے بانجھ پن۔
عورتوں میں بھی جب سفلس ہوتی ہے تو یہی علامات ہوتی ہیں اور ضروری نہیں کہ یہ سب علامات ایک مریض میں پوری کی پوری ہوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام علامات مریض میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں

:لیٹنٹ سٹیج


اس سٹیج پر علامات چھپ جاتی ہیں اور کئی سالوں تک بغیر کچھ کہے یہ بیکٹیریا مریض کے جسم میں رہتا ہے لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب یہ باہر اتا ہے تو پھر خوب تباہی مچاتا ہے

:ٹرشری سٹیج


اس سٹیج میں یہ بے حد خطرناک صورت اختیار کر جاتا ہے یہ سٹیج مرض کے شروعات سے لے کر 10 سے 30 سال کے عرصے میں مکمل ہوتا ہے صرف سفلس سٹیج میں دل خون کی نالیاں ،دماغ اوردماغی خلیاتی نظام،ہڈیاں،جوڑ ،جگر کےنظام کو تباہ کرتی ہے اور انسان کو موت کی طرف دھکیل دیتی ہے

:نیورو سفلس


نیورو سفلس میں سفلس دماغ اور اس کے خلیاتی نظام کانوں اور انکھوں کے نظام کو تباہ کرتی ہے اور مکمل طور پر اپاہج کر دیتی ہے

:کونجینیٹل سفلس


بچوں کو ماں کے پیٹ میں خون کے ذریعے ٹرانسفر ہونے والی سفلس کو کنجینیٹل سفلس کہا جاتا ہے دنیا بھر میں ہر سال دس لاکھ بچے اس کا شکار ہوتے ہیں اور ماں باپ کی غلطی کو عمر پر بھگتتے ہیں اس کی مزید تفصیل ہمارے بلاگ کی پوسٹوں میں اپ کو ملے گی

:سفلس ٹیسٹ


سفلس کے لیے مختلف خون کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جن سے سفلس کی موجودگی کا پتہ لگایا جاتا ہے
وی ڈی ار ایل،ٹی پی ایچ اے،آر پی آر،ایف ٹی اے۔اے بی ایس
یہ وہ تمام ٹیسٹ ہیں جو سفلس کو جانچنے کے لیے لیبارٹریز میں کیے جاتے ہیں

:سفلس کا علاج


میڈیکل سائنس میں سب سے پہلے سفلس کا علاج کرنے کے لیے پنسلین کا استعمال کیا جاتا رہا وقت گزرنے کے ساتھ مختلف قسم کے اینٹی بائوٹکس دیے جانے لگے اور آج تک یہی طریقہ رائج ہے لیکن ہماری تحقیق کے مطابق میڈیکل سائنس اج کے دن تک اس کا مستقل علاج کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اینٹی بائوٹکس وقتی طور پر ان بیکٹیریاز کے خلاف کام کرتے ہیں اور کئی سال علاج کروانے کے بعد بھی مرض جوں کا توں رہتا ہے یہ اعزاز صرف تحسینی کلینک کو حاصل ہے کہ پچھلے 15 سال سے “سفلو” کے نام سے ایک ایسی دوا تیار کی جاتی ہے جو نایاب جڑی بوٹیوں کو سائنسی طریقے سے مختلف مراحل سے گزار کر بیکٹیریا کو ختم کرنے کے لیے تیار کی جاتی ہے اور اب تک لاکھوں لوگ اس تحقیق سے مستفید ہو چکے ہیں ہماری دوا “سفلو”کے چھ ماہ کے کورس سے یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے

Scroll to Top